Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر10

یہ ہی تو راز الفت ہے کہ ہر آنسو رخ موڑا💔💔 نور اپنے روم میں ائی کمرے کا درواذ بند کیا اور ایک کٹی ہوئی شاخ کی طرح زمیں پر بیٹھ گئی وہ ٹوٹ گئی آنسو باہر انے کے لیے تیار تھے وہ رونے گئی جانتی تھی کہ جو آج ہو تھا وہ سب ہو گا وہ تیار تھی لیکن پھر سے نئے سرے سے تکلیف ہو اس کو آج وہ پھر سے ٹوٹ گئی جیسے بارا سال پہلے ٹوٹی تھی لیکن اس وقت میں اور آج میں زمیں آسمان کا فرق تھا بارا سال پہلے اس کے ماں بابا اس کے ساتھ تھے لیکن آج اس کے پاس کوئی اپنا موجود نہیں تھا نہ ہی پیار کرنے والی ماں اور نہ ہی بابا وہ سسکی اور ایک نام اس کے ہونٹوں پر تھا ماں پلیز میں تکلیف میں ہو بابا آپ کی بیٹی تھک گئی ہے اس نے روتے ہوے کہا لیکن پھر اس نے اپنے آنسو صاف کیے لیکن ماں بابا آپ کی بیٹی مضبوط ہے وہ نہیں رو گئی میں نفرت کرتی ہو آپ لوگوں سے اب نور احمد اور حریم سے مخاطب تھی اور وہ اٹھی وضو کیا نماز ادا کی اور دعا میں خدا سے اپنے لیے سکون مانگا کچھ لوگوں دعاوں میں سکون مانگتے ہے لیکن یہ بھول جاتے ہے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو پریشان کیا ہے یہ ہی حال اس وقت نور کا تھا اس نے اپنے باپ سے کیسے بات کی ان کو کنتی تکلیف دی تو وہ کیسے سکون میں ہو سکتی تھی ❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣ ڈاکٹر ایا اور اس نے حریم کو انجکیشن دیا کچھ ضروری باتے کی اور چلا گیا احمد اپنی بیوی کو دیکھا رہا تھا آج انتے سال بعد وہ وقت کے ساتھ کمزور ہو گئی تھی سب اس کے روم میں موجود تھے شاہ اور بلال بیڈ پر بیٹھے تھے بلال بچے جاو آپ اور شاہ آپ بھی جاو آپنے روم میں ہو یہاں احمد نے کہا پر ڈیڈ مجھے یہاں ہی رہنا ہے ماما کے پاس بلال نے کہا بلال رات بہت ہو گئی ہے جاو ویسے بھی حریم کو صبح ہی ہوش ائے گا چلو احمد نے کہا بلال نے گہرا سانس لیا اور شاہ کی طرف دیکھا تو شاہ نے آنکھیں ہی آنکھیں میں کچھ اشارہ کیا ٹھیک ہے ڈیڈ لیکن آپ بھی پریشان نہیں ہویے گا سب ٹھیک ہو جائے گا بلال نے کہا اس کی بات پر احمد نے بلال کو گلے سے لگیا اور انشاءاللہ کہا احمد کو شائد اس چیز کی ضرورت تھی دو دونوں روم سے باہر ائے دونوں ہی خاموش تھے لیکن پھر شاہ بولا بلال تو ٹھیک ہے اس کی بات پر بلال نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولی اور جواب دیا پتا نہیں تو شاہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو روم میں لایا ۔ بلال جو تیرے دل میں ہے مجھے بتاوں شاہ نے کہا شاہ میری بہن کے ساتھ اتنا سب ہو گیا اور وہ اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا میری ڈول نے اتنی تکلیف میں تھی بلال نے قرب سے کہا بلال جو ہو گیا اس کو ہم نہیں بدل سکتے لیکن ہم نور کو خوش رکھنے کی کوشش کر سکتے ہے اس کی نفرت ختم کرنے کی کوشسش کر سکتے ہے شاہ نے کہا ہاں جو کچھ آج ہوا اس کو بھول نہ اسان نہیں ہے بلال نے کہا سب ٹھیک ہو جاے گا شاہ نے کہا اچھا اب تم جاو نور کے پاس بلال نے کہا اور شاہ سر ہلاتا ہو چلا گیا ❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣ شاہ روم میں ایا تو نور سو چوکی تھی کچھ وقت وہ نور کو دیکھتا رہا اتنا سب کچھ ہو ہے اس لڑکی کے ساتھ میں وعدہ کرتا ہو نور میں آپ کو بہت خوشیاں دو گا آپ سب بھول جاو گئی شاہ نے خود سے عہد کیا اور فریش ہونے چلا گیا کچھ وقت بعد واپس ایا اب وہ کچھ پر سکون تھا اس نے گہرا سانس لیا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر لیٹ گیا اور نور کو دیکھنے لگا نور کو دیکھا کر اس کے چہرہ پر مسکراہٹ ائی اور اس کی طرف جھکا اور ماتھے پر لب رکھے دور کہی فجر کی آزان ہو رہی تھی نور کی آنکھ کھولی اس کی نظر شاہ کی طرف گئی تو شاہ اس کو دیکھا رہا تھا شاہ ساری رات نور کو دیکھتا رہا اور اس کے بارے میں سوچتا رہا دونوں کی نظریں ملی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ایک کی آنکھوں میں حیرات اور دوسرے کی آنکھوں میں پیار اور نرمی تھی نور نے گھبرا کر کڑوٹ لی تو شاہ مسکرایا اور اس نے نور کو کھیچ کر اپنے قریب کیا اس کی حرکت پر نور کا سانس بند ہو گیا شاہ نے اس کا رخ اپنی طرف کیا اور اس کو دیکھنے لگا یہ یہ آپ نور اور بھی کچھ کہتی شاہ نے اس کی بات کاٹی ششش شاہ نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور اپنی پیشانی اس کی پیشانی پر رکھی💑💑 دونوں ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو سن رہے تھے اور ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے روم میں ایک محبت بھری خاموشی تھی مسٹر آفیسر نور نے خاموشی کو توڑا جی شاہ نے کہا مجھے نماز پڑھنی ہے نور نے کہا تو وارث نے سر اٹھا کر نور کو دیکھا اور مسکرایا اس کے ماتھے پر لب رکھے اور اس کو کہا جاو نور کے چہرے پر حیا کے زنگ تھے وہ وضو کر کے واپس ائی تو شاہ بھی اٹھا اور فریش ہوا مسجد کی لیے نکالا ❤❤❤❤❤❤❤ نور نے نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو اس کی آنکھیں کے سامنے صبح والا منظر ایا اس کے ہونٹوں پر ایک شرملی سی مسکاں ائی نور نے گہرا سانس لیا اور دعا مانگئی کیا وارث مجھے سے محبت کرتے ہے نور نے خود سے سوال کیا ہاں شائد دل سے ایک آواز ائی نور اب آنیئہ کے سامنے خود کو دیکھا رہی تھی مجھے اس راشتہ کو وقت دینا چاھیے میں حوبصورت ہو نور نے خود سے کہا زندگی میں پہلی بارا نور نے خود کو حوبصورت کہا تھا پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرائ اور الماری کی طرف بڑھی یار مجھے تو شاپنگ کی ضرورت ہے نور نے سوچا اور پھر الماری سے ایک اچھا سا ڈریس نکالا اور فریش ہونے چلی گئی وہ واپس ائی اور تیار ہونے لگئی نور کو شروع سے ہی میک آپ کا شوق تھا لیکن اس کی ماں اس کو کرنے نہیں دیتی تھی وہ کہتی تھی کہ نور میک آپ شادی کے بعد کر نا اور ان کی بات پر نور کا منہ جاتا تھا آج نور کو اماں کی بات یاد ائی تو ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا جس کو اس نے بے دردی سے صاف کیا تھا آنکھیں میں جل لگا چہرے پر بی بی کریم اور ہونٹوں پر لائیٹ زنگ کی لپسٹ لگئی کم وقت میں ہی وہ تیار ہو گئی اور اب وہ کانوں میں ٹوپز پہلنے لگئی تھی اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور شاہ اندر ایا نور کو آنیئہ کے سامنے اور تیار دیکھ کر وہ کھو گیا
نور آنیئہ میں اس کا عکس دیکھ کر انجان بنتے ہوے اپنا کام کرتی رہی کچھ وقت بعد شاہ کو ہوش ایا اور چلتا ہوا نور کے پاس ایا کہی جا رہی ہے. آپ وارث نے پوچھا نہیں ایک الفاظ میں جواب ایا وارث حیران پریشان سا الماری کی طرف بڑھا وہ سوچ رہا تھا کہ نور کو ہوا کیا ہے سنیے میں نے آپ کے کپڑے نکال دیے ہے آپ فریش ہو جاے نور نے کہا اور ایک نظر آنیئہ میں خود کو دیکھا اور صوفہ پر بیٹھ گئی جبکہ شاہ کو شاک لگ اس کی بات پر وہ تو اس سے بات نہیں کرتی تھی آج اس کو ہوا کیا تھا کہ اس کے کام کر رہی تھی وہ فریش ہو کر واپس ایا تو نور صوفہ پر بیٹھی فون استعمال کر رہی تھی وہ چلتا ہو آنیئہ کے سامنے ایا اس ہی وقت روم کا درواذ نوک ہو اور بوا ناشتہ لے کر اندر ائی بوا آپ یہ واپس لے جائے ہم نیچے ارہے ہے نور نے ان سے اسلام لینے کے بعد کہا اور بوا مسکراتی ہوئی واپس چلی گئی جبکہ شاہ کو تین جٹھکا لگ تھا وہ پریشان سا نور کو دیکھا رہا تھا جو کچھ کل ہو تھا وہ سوچ رہا تھا کہ نور اب کبھی روم سے باہر نہیں نکالے گئی لیکن وہ نارمل بی ہیو کر رہی تھی جیس کچھ ہوا ہی نہیں نور مڑی اور شاہ کی شکل دیکھ کر اس کو بہت ہسنی ائی لیکن وہ ضبط کر گئی چلے اس نے وارث سے کہا ہاں وارث نے خود کو کمپوز کرتے ہوے کہا


وہ دونوں نیچے ائے تو سب ناشتہ کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے بلال کے نور سب کو اسلام کیا سب حیران سے نور کو دیکھا رہے تھے کیونکہ وہ اکیسڈنٹ کے بعد آج نیچے ائی تھی وہ کھانا اپنے روم میں ہی کھاتی تھی بڑی ماں بلال بھائ کہاں ہے نور نے دعا سے پوچھا تو وہ مسکرای اپنے روم میں ہے آتا ہی ہو گا دعا نے کہا میں بھائ کو بلا کر لاتی ہو نور نے کہا اور چلی گئی جبکہ شاہ کو پھر سے شاک لگ تھا نور کا دعا کو بڑی ماں کہنا اس کو سمجھ نہیں ارہا تھا کہ نور کو ہوا کیا ہے


نور بلال کے روم میں ائی تو وہ تیار ہو رہا تھا بھائ ناشتہ پر میں آپ کا انتظارا کر رہی تھی چلے نور نے بلال کا ہاتھ پکرا جبکہ بلال مسکرا بھی نہیں سکا اور حیران تھا نور کیسے نارمل بی ہیو کر سکتی ہے وہ دونوں نیچے ائے سب ناشتہ میں مصروف تھا سوائے وارث کے جو وہ نور کے بارے میں سوچ رہا تھا بھائ کیا لے گئے نور نے بلال سے پوچھا بچے آپ کھاو میں خود لے لو گا بلال نے کہا یار بتاے نا بھائی نور نے کہا ٹھیک ہے سیٹنچ دے دو بلال نے کہا اور حیرات سے شاہ کو دیکھا رہا تھا جو خود گہرئ سوچ میں تھا مسٹر آفیسر آپ کیا لے گئے نور نے اب شاہ کو دیکھا جو کہ ناشتہ نہیں کر رہا تھا
شاہ اس کی بات پر ہوش میں ایا کچھ نہیں شاہ نے کہا اور جوس گلاس میں ڈالا کیوں آپ ناشتہ کیے بغیر آفیس جاے گئے نور نے پوچھا ایک اور شاک لگ شاہ کو آج سے پہلے وہ کچھ کھاتا ہے کہ نہیں نور کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی جی شاہ نے جواب دیا ویسے یہ بات ٹھیک نہیں ہے آپ یہ لے نور نے کہا اور ایک سیٹنچ اس کی پلیٹ میں رکھ نور نے مسکرا کر سب سے کچھ نا کچھ بات کی سوائے احمد اور حریم کے اور یہ بات شاہ اور بلال نے نوٹ کی تھی جبکہ حریم اور احمد اپنی ڈول کو خوش دیکھا کر خوش تھے شاہ اور بلال نے سب کو خدا حافظ کیا اور پورچ میں ائے یہ سب کیا تھا بلال نے نور کے بارے میں پوچھا شاہ جو خود پریشان تھا بلال کی بات سن کر گہرا سانس لیا بلال ابھی وہ کچھ اور کہاتا نور نے اس کو آواز دی اور اس کے پاس ائی مسٹر آفیسر آپ واپس کب ائے گئے نور پوچھا جبکہ شاہ کو ایک اور شاک لگ 5 بجے تک شاہ نے حیران ہوتے ہوے کہا کیا آپ جلدی نہیں اسکتے آج نور نے پوچھا کیوں آپ کو کوئی کام تھا شاہ نے پوچھا جی کام تو تھا لیکن اچھے بھائ آپ کب تک گھر آئے گئے نور اب بلال سے مخاطب تھی بچے میں تو 2 بجے تک اجاو گا کیا کام ہے بلال جو ان دونوں کی بات سن رہا تھا بولا ٹھیک ہے بھائ مجھے شاپنگ پر جانا ہے کچھ ضروری چیزیں لینی ہے نور نے کہا ٹھیک بچے میں لے جاو گا بلال نے کہا اور نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر گاڑھی میں بیٹھ گیا نور طبعیت ٹھیک ہے آپ کی شاہ نے آخر کار پوچھا لیا جی ٹھیک ہے نور نے کہا اوکے میڈیسن ٹائم پر لینا اور یہ پسیے ہے کچھ اور کارڈ اس سے شاپنگ کر لینا میں اگر فری ہوتا تو خود لے جاتا آپ کو اللہ حافظ شاہ نے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے اور گاڑھی کی طرف بڑھا جبکہ نور اس کو گھورتی رہ گئی بے شرم انسان نور نے کہا اور اندر کی طرف بڑھی۔۔۔

   0
0 Comments